Sunday, 14 October 2012

"لوگ کیا کہیں گے"


ایک عجیب سی عادت بن گئی ھے ھم سب کی کے ھر بات ھر معاملے میں عوام الناس کی اہمیت نہیں بُھولتے۔ بات تو اچھی ہے ایک رُخ سے کے اگر عوام الناس کی بات پہ کان نہین دھرا جائے گا تو آخر سُنی کس کی جائے؟ ھم بھی تو عوام الناس ھی ہیں ناں دوسروں کے لئے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
مگر مسئلہ وہاں سے پیدا ھونا شروع ھوتا ھے جب ہم عوام الناس کوخُود پہ اس قدر سوار کر لیتے ہیں کے ہم اپنی ھی ذات کی نفی کرنے لگ جاتے

ہیں۔ اور اُس پر کمال از کمال یہ کے ہمیں اس بات کا احساس بھی نہیں ھوتا کے "لوگ کیا کہیں گے" کے چکر میں "ہم کیا چاھتے ہیں؟" یہ ہمیں پتہ ھی نہیں ھوتا۔ ۔ ۔ ۔
ایسے ھی جب ھم کہیں بھیڑ میں ہوں تو اوّل تو "لوگ کیا کہیں گے" ھی سے فُرصت نہیں ملتی اگر گھڑی پل کو اس بلائے جان سے چھُٹکارہ پا ھی لیا جائے تو "لوگ کیا کر رھے ہیں؟" جیسی سوچیں جکڑ لیتی ہیں۔ ٹیلنٹ ہم میں اگر کوئی بُہت خاص ھے تو میرے مُطابق وہ دوسروں میں مین میخ نکالنا ھے ۔ ۔ ۔ ۔
آج ہماری اِس انفرادی عادت کا ہمیں اجتماعی نُقصان یہ ھوا ہے کے ھم ترقی کی دوڑ سے باہر نکلتے جا رہے ہیں۔ہم ترقی کریں تو کیسے بھئی؟ ہمارے پاس تو "سوچوں" ہی سے فُرصت کا وقت نہیں ھے۔ دوسروں کے بارے میں سوچنے کی اس قدر عادت ھو گئی ھے کے اب اپنے بارے میں ہم نے سوچنا شروع کیا تو "لوگ کیا کہیں گے"۔ ۔ ۔ ۔


تحریر: شمامہ اُفق